اسلام آباد:(صاف بات) اسلام آباد ہائی کورٹ میں 20 جنوری بروز جمعرات انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں جسٹس اطہر من اللہ نے فریقین سے کہا کہ عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کا حکم پہلے دیا تھا اس لیے پہلے چارج فریم کریں گے پھر آپ کو سنیں گے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب، بتائیں فرد جرم کی کارروائی کیسے آگے بڑھائیں، رانا شمیم کے بیان حلفی میں سنگین الزامات عائد کیے گئے، ہمیں کچھ نہیں چھپانا، نہ چھپائیں گے، جولائی 2018ء سے آج تک بتائیں کون سا حکم کس کی ہدایت پر جاری ہوا ؟ اس عدالت کی بہت بے توقیری ہوگئی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کے حوالے سے ہی تمام بیانیے بنائے گئے، آئینی عدالت کے ساتھ بہت مذاق ہوگیا، کسی بھی سائل کو بے توقیری کا ایک بھی موقع نہیں دے سکتے،
آپ کو احساس تک نہیں کہ زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے، ایک اخبار کے آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے، لوگوں کو بتایا گیا کہ اس عدالت کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، ایک کیس دو دن بعد سماعت کے لیے فکس تھا، جب اسٹوری شائع کی گئی۔عدالت نے کہا کہ اگر کوئی غلطی تھی تو ہمیں بتا دیں، ہم بھی اس پر ایکشن لیں گے، کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دے گی اور اس کو ہم چھاپ دیں گے تو کیا ہو گا ؟ اخبار کہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی رائے نہیں لی تو پھر یہ زیادتی ہوگی۔اس موقع پر عدالت نے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان پر فرد جرم عائد کی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم پر عائد الزامات پڑھ کر سنائے۔